''میں جب برطانیہ گیا تو ایسا نہیں تھا جو اب بن گیا ہے،، یہ ''سیکس اینڈ ڈرگز اینڈ راک اینڈ رول نیا نیا شروع ہورہا تھا ۔ پہلے Adults only فلمیں ہوتی تھیں، پھر وہ کونٹینٹ ٹیلیویژن پر دکھایا جانے لگا، ہم نے دیکھا کہ جیسے جیسے فحاشی بڑھتی گئی اسکا ڈائریکٹ امپیکٹ انکے معاشرے اور فیملی سسٹم پر پڑا۔ یہی چیزیں جب انڈیا نے اپنانا شروع کیں تو وہاں بھی اسکے اثرات نظر آئے، آج دلی کو ریپ کیپیٹل کہا جانے لگا ہے۔۔
کئی چیزیں ہم روک نہیں سکتے، باہر کی فلمیں آتی ہیں (اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں)۔ جیسی فلمیں بن رہی ہیں اسکا کوئی تو امپیکٹ ہوتا ہی ہے۔ آج موبائل پر ایسا کونٹینٹ موجود ہے، اسطرح کا مواد بچوں تک پہنچ رہا ہے جو آج سے پہلے کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے، فلموں ڈراموں کی صورت جو کچھ دکھایا جارہا ہے ۔۔ ایسے معاشرے میں جتنی فحاشی بڑھاتے جائیں گے، اور احتیاط نہیں کریں گے تو اسکے اثرات بھی ضرور ہونگے۔ اسطرح کی چیزیں یوں عام ہوگئی ہیں، انہیں دیکھنے والے ہر انسان میں اتنی قوت برداشت اور اتنا کنٹرول نہیں ہوتا۔ اس سے پھر معاشرے میں ریپ کیسز، اور بےحیائی پھیلتی ہے۔''
یہ الفاظ وزیراعظم عمران خان صاحب کے ہیں، اس میں نہ تو عورت کے پردے کی بات کی گئی ہے، نہ ہی خواتین کی آزادی سلب کرنے یا انہیں گھروں میں قید کرنے کا ذکر ہے ۔۔۔ نہ ہی ریپسٹ کو معصوم قرار دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سوسائٹی میں بڑھتے ذیادتی کے واقعات کی ایک وجہ اس طرح بڑھتی بےحیائی کو قرار دیا ہے۔۔
اہل پہچان سے سوال ہے،
اس وقت ہمارے لبرل سیکولر طبقات نے وزیراعظم کے بیان کو ''عورت کی آزادی'' پر حملہ قرار دے دیا ہے ۔۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، وزیراعظم کو اس بیان پر معذرت کرنی چاہئے؟ یا انہوں نے درست بات کی ہے؟
نوٹ : یہی سیکولر لبرل طبقہ ہی ریپسٹ کی پھانسی کی سب سے ذیادہ مخالفت کرتا آیا ہے۔
0 تبصرے